Waseem khan

Add To collaction

08-May-2022 لیکھنی کی کہانی -بدلہ قسط13


 بدلہ 
از مشتاق احمد 
قسط نمبر13

 کنڈیکٹر نے پکارا واں بھچراں کا سٹیشن آ گیا کچھ مسافر اتر گئے۔ 
آپ نے کہاں جانا ہے۔ایک مسافر نے پوچھا۔ 
میانوالی۔ مختصر سا جواب دیا سوچ میں ڈوب کر۔آپ پہلے کہاں رهتے تھے؟ کسی اور نے پوچھا۔ 
چھدرو کے ساتھ پہاڑی علاقہ میں۔ 
اب کی بار وہ باہر دیکھنے میں مگن تھا۔
 کچھ مسافر اتر گئے۔ 
گاڑھی چل پڑی۔
سب بات سننے میں اتنے مگن تھے کہ وقت گزرتے پتہ بھی نہیں لگا۔ 
اب انکو آگے کا تجسس تھا۔ 
عثمان جی پھر کیا ہوا۔ 
یہ بات سن کر پھر سے رونے لگا۔
کیوں ہوتا ہے زندگی میں ایسا کہ بھولنا چاہو بھی تو بھلایا نہیں جا سکتا۔
 پھر بتانا شروع ہوا۔
 ناظم نور کو لے کر گھر واپس آ گیا۔
 عثمان حور دونوں  نے پوچھا تو ناظم پہلے تو چپ رہا پھر سوچا بتا دوں۔ 
چچا پھر ساری بات بتا دی۔ 
کیسا تھا وہ۔ عثمان کو انوکھا وہم ہوا۔ 
نور جانتی ہے مجہے شک ہے پر بتا نہیں رہی۔ ناظم نے خدشے کا اظہار کیا۔ 
عثمان کو خوف آیا فورا رینا یاد آیی۔
 عثمان رات کو نور کے کمرہ میں آیا۔ 
بیٹا مجہے بتا دو ڈرو نہیں ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے کوئی انہونی ہو جائے۔ 
بتاؤ گی نہ۔عثمان نے بیٹی کو پیار سے سینے سے لگایا۔ 
 نور نے روتے ہوے ہاں میں سر ہلایا۔ 
یہ بتاؤ کیسا دکھتا تھا وہ لڑکا۔ 
ایج میں میرے جتنا ہی لگتا تھا۔ناظم نے جب اسکو دیکھا تو کہا تمہاری صورت جیسا ہے۔نور بولی۔ 
 عثمان کا دل دھڑکا زیر لب بولے ہادی۔ 
اسکا نام بتاؤ۔اب عثمان کا دل پھٹنے کے قریب تھا۔ 
 ابو ہادی تھا اسکا نام۔ 
عثمان سے ہلا نہیں جا رہا تھا جیسے ساری طاقت ختم ہو گئی ہو۔ 
فورا اٹھ کر باہر چلا گیا۔ 
باہر آ کر رونے لگا۔
 یہ کیا کر دیا تم نے کون تھی تم ؟
کیسا بدلہ لیا مجھ سے کیوں کیا۔ میرے بیٹے کو اپنے جیسا بنا ڈالا۔ 
ایک انسان جانور بن جائے پھر نہیں بدل سکتا۔ وہ انسان جس نے اپنے جیسے کا گوشت  ۔۔۔۔۔نہیں رو پڑا پھر میں حور کو کیا بتاؤں گا پر بتانا پڑے گا۔
 وہ عورت اے گی نور کے پیچھے ہادی بھی اے گا۔اب عثمان کو ڈر تھا۔ 
 وہ میری فیملی کو ختم کرنا چاہتی ہے پر میری فیملی میں بچا ہی کون ہے نور کے سوا ۔
ہادی تو دوسری دنیا کا بن گیا۔
 زندہ ہے یہ سن کر خوشی کیوں نہیں ہو رہی مجہے۔ ہادی اپنی سگی بہن کو مارنا چاہتا ہے۔ 
عثمان کھڑا تھا کہ پیچھے سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا گیا ۔
پلٹ کر دیکھا حور تھی۔ 
کیا ہوا تنہا کیوں کھڑے ہیں اور آپ پریشان کیوں۔
 حور مجہے تمکو کچھ بتانا ہے سن سکو گی۔
 اتنا کچھ سہا ہے اور کیا رہ جاتا ہے۔ حور بولی۔ 
بیگم ۔۔۔پھر سب کچھ بتا دیا۔
 نور روتے ہوے نیچے بیٹھ گئی۔ 
میرا بیٹا ہادی۔
 جو دودھ پیتا تھا اس وقت۔ اس معصوم کو اس رینا نے درندہ بنا دیا۔
 آہ لگے گی اسکو ایک ماں کی۔
 پھر رو کر اٹھی عثمان نور کی حفاظت کرنی ہے ہمیں۔
ہادی نے بھی چھٹی مانگی تھی اپنی ماں کی بیماری کا بول کر ساتھ رینا کی بیمار ایکٹنگ والی ویڈیو بھی دکھائی تھی۔
 اتنی سندر عورت ۔
افسر تو رینا کے حسن میں کھو گیا تھا۔
 ہاں مل جائے گی چھٹی۔ 
جب چاہو جا سکتے ہو۔
 تمہاری مام کی عیادت کو آہیں گے جب بہتر ہو جایں تو۔ بتانا۔ 
ہادی دل میں ہنسا تھا پھر نکل پڑا ہادی بھی نور کے پیچھے۔  
ہیلو مام۔ ہادی گلے لگا رینا نے پیار کیا۔ 
کیسا گزرا وقت۔ رینا نے پوچھا۔ 
بور مام۔ آپ نے ویسے ہی مجہے بھیجا۔چہرہ اترا ہوا تھا۔ 
بیٹا دنیا داری بھی تو نبھانی ہے نہ ویسے بھی یہ اچھا لائف سٹائل ہے تمہارے لئے۔ 
کھانا بھی بہت ملے گا کہ کر ہنسی۔ آزاد گھومو گے۔ کوئی فکر نہیں۔
 اوکے اب ریسٹ کرو پھر بات کریں گے۔ 
اوکے مام ہادی اپنے کمرہ میں آ گیا۔ 
تھوڑی دیر کے بعد فریج کی طرف گیا اور خون کا گلاس پیا۔ 
پھر جب سونے کے لئے آنکھیں بند کیں فورا نور کی روتی آنکہیں سامنے آ گئے جھٹ اٹھ بیٹھا۔ 
کمرہ میں ٹہلتا رہا۔
 کیوں جب میں سوچتا ہوں اسکو مارنے کا دل منع کرتا ہے۔
 اس دن بھی تو اس نے نور کو چھوڑ دیا تھا بے  اختیار۔ پتہ نہیں کیوں۔
 سوچتے سوچتے سو گیا ۔ 
صبح رینا ہادی کو لے کر گئی یہ دیکھو یہاں اس گھر میں تمہارا شکار ہے۔
 رات کو تمنے یہاں سبکو مارنا ہے اور ثبوت بھی نہیں چھوڑنا۔ سمجھے۔ 
عثمان کے گھر سے فاصلہ پر کھڑے تھے وہ دونوں۔ اوکے۔ مام بےفکر رہیں۔ 
تھینکس بیٹا۔ رینا نے ہنس کر گھر کو دیکھا پھر چلی گئی۔ 
صبح عثمان ختم ہو چکا ہوگا ود فیملی ۔ میرا بدلہ پورا ہوا۔ 
ہاہاہا۔

   0
0 Comments